جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا
آشفتگی نے نقش سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ
سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا
عالم جہاں بہ عرض بساط وجود تھا
جوں صبح چاک جیب مجھے تار و پود تھا
بازی خور فریب ہے اہل نظر کا ذوق
ہنگامہ گرم حیرت بود و نبود تھا
عالم طلسم شہر خموشی ہے سربسر
یا میں غریب کشور گفت و شنود تھا
تنگی رفیق رہ تھی عدم یا وجود تھا
میرا سفر بہ طالع چشم حسود تھا
تو یک جہاں قماش ہوس جمع کر کہ میں
حیرت متاع عالم نقصان و سود تھا
گردش محیط ظلم رہا جس قدر فلک
میں پائمال غمزۂ چشم کبود تھا
پوچھا تھا گرچہ یار نے احوال دل مگر
کس کو دماغ منت گفت و شنود تھا
خور شبنم آشنا نہ ہوا ورنہ میں اسدؔ
سر تا قدم گزارش ذوق سجود تھا
غزل
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار (ردیف .. ا)
مرزا غالب