جز نہال آرزو سینے میں کیا رکھتا ہوں میں
کوئی بھی موسم ہو یہ پودا ہرا رکھتا ہوں میں
ورنہ کیا بندھن ہے ہم میں کون سی زنجیر ہے
بس یونہی تجھ پر مری جاں مان سا رکھتا ہوں میں
کار دنیا کو بھی کار عشق میں شامل سمجھ
اس لیے اے زندگی تیری پتہ رکھتا ہوں میں
میں کسی مشکل میں تجھ کو دیکھ سکتا ہوں بھلا
دل گرفتہ کس لیے ہے دل بڑا رکھتا ہوں میں
بے نیازی خو سہی تیری مگر یہ دھیان رکھ
لوٹ جانے کا ابھی اک راستہ رکھتا ہوں میں
غزل
جز نہال آرزو سینے میں کیا رکھتا ہوں میں
شکیل جاذب