EN हिंदी
جز اور کیا کسی سے ہے جھگڑا فقیر کا | شیح شیری
juz aur kya kisi se hai jhagDa faqir ka

غزل

جز اور کیا کسی سے ہے جھگڑا فقیر کا

راشد امین

;

جز اور کیا کسی سے ہے جھگڑا فقیر کا
کتوں نے روک رکھا ہے رستہ فقیر کا

اجلا ہے اس سے بڑھ کے کہیں روح کا لباس
میلا ہے جس قدر بھی یہ کرتا فقیر کا

جب دھوپ کے سفر میں مرا ہم سفر بنا
برگد سے بھی گھنا لگا سایہ فقیر کا

دریا کبھی پلٹ کے نہیں آیا آج تک
بدلے گا کس طرح سے ارادہ فقیر کا

کٹیا کا ہو کہ کوئی محل کا مقیم ہو
ہر آدمی کے ساتھ ہے رشتہ فقیر کا