جز اور کیا کسی سے ہے جھگڑا فقیر کا
کتوں نے روک رکھا ہے رستہ فقیر کا
اجلا ہے اس سے بڑھ کے کہیں روح کا لباس
میلا ہے جس قدر بھی یہ کرتا فقیر کا
جب دھوپ کے سفر میں مرا ہم سفر بنا
برگد سے بھی گھنا لگا سایہ فقیر کا
دریا کبھی پلٹ کے نہیں آیا آج تک
بدلے گا کس طرح سے ارادہ فقیر کا
کٹیا کا ہو کہ کوئی محل کا مقیم ہو
ہر آدمی کے ساتھ ہے رشتہ فقیر کا

غزل
جز اور کیا کسی سے ہے جھگڑا فقیر کا
راشد امین