جوں قدم یار نے گھر سے مرے در پر رکھا
سر رکھا زانو پہ میں ہاتھ جگر پر رکھا
ہم کو صیاد نے رکھا جو قفس میں تو آہ
دست شفقت کبھی ظالم نے نہ سر پر رکھا
سنگ رہ اس کی گلی کا جو کوئی ہاتھ آیا
مثل گل میں نے اٹھا کر اسے سر پر رکھا
بیٹھے بیٹھے تجھے کون آ گیا یاد آج کمالؔ
تو نے رومال جو لے دیدۂ تر پر رکھا

غزل
جوں قدم یار نے گھر سے مرے در پر رکھا
شاہ کمال الدین کمال