EN हिंदी
جوں گل تو ہنسے ہے کھل کھلا کر | شیح شیری
jun gul tu hanse hai khil-khila kar

غزل

جوں گل تو ہنسے ہے کھل کھلا کر

میر اثر

;

جوں گل تو ہنسے ہے کھل کھلا کر
شبنم کی طرح مجھے رلا کر

مہمان ہو یا کہ یاں تو آ کر
یا رکھ مجھے اپنے ہاں بلا کر

در پر تیرے ہم نے خاک چھانی
نقد دل خاک میں ملا کر

مانوس نہ تھا وہ بت کسو سے
ٹک رام کیا خدا خدا کر

کن نے کہا اور سے نہ مل تو
پر ہم سے بھی کبھو ملا کر

گو زیست سے ہیں ہم آپ بیزار
اتنا پہ نہ جان سے خفا کر

کچھ بے اثروں کو بھی اثر ہو
اتنی تو بھلا اثرؔ دعا کر