EN हिंदी
جوں بھی جو رینگنے نہیں دیتی تھی کان پر | شیح شیری
jun bhi jo rengne nahin deti thi kan par

غزل

جوں بھی جو رینگنے نہیں دیتی تھی کان پر

رئیس باغی

;

جوں بھی جو رینگنے نہیں دیتی تھی کان پر
کالک لگا کے چھوڑ گئی خاندان پر

مائل ہیں ذہن و فکر جو اونچی اڑان پر
یوں پاؤں ہیں زمیں پہ نظر آسمان پر

آرام سے ہیں اونچی عمارات کے مکیں
پتھر برس رہے ہیں شکستہ مکان پر

ارزاں فروش پر نہیں اٹھتی نظر کوئی
رہتی ہے بھیڑ شہر کی مہنگی دکان پر

جیسے بدن میں جان ہی باقی نہیں رہی
محسوس ہو رہا ہے سفر کی تکان پر

بپھرے سمندروں پہ برستا چلا گیا
آیا نہ ابر دھوپ میں تپتے مکان پر

دل ریزہ ریزہ ہے تو جگر ہے لہو لہو
کیسی بنی ہوئی ہے محبت کی جان پر

ہاں رہروو ملے گی تمہیں منزل حیات
چلتے رہو ہمارے قدم کے نشان پر

خوددارئی جمال گوارا نہ کر سکی
اس نے مسل کے پھینک دیا پھول لان پر

اس
باغیؔ بھٹک رہا ہوں میں صحرائے‌‌ شوق میں

کیا نقش اس نے لکھ کے کھلایا تھا پان پر