جستجو کے سفر میں رہتے ہیں
ہم کہ پیہم خبر میں رہتے ہیں
ہم کو کس کی نظر میں رہنا تھا
اور اس کی نظر میں رہتے ہیں
آرزو تم ہماری مت کرنا
ہم دعا کے اثر میں رہتے ہیں
ہم نوا اپنا کوئی بن نہ سکا
یوں تو پیہم سفر میں رہتے ہیں
کل تلک تھے چراغ راہ گزر
بجھ گئے ہم تو گھر میں رہتے ہیں
جڑ رہی ہے عمل سے یہ دنیا
ہم اگر اور مگر میں رہتے ہیں
عیب کیوں کر ہوں بے ہنر میں عبیدؔ
عیب تو با ہنر میں رہتے ہیں
غزل
جستجو کے سفر میں رہتے ہیں
عبید الرحمان