جرم امید کی سزا ہی دے
میرے حق میں بھی کچھ سنا ہی دے
عشق میں ہم نہیں زیادہ طلب
جو ترا ناز کم نگاہی دے
تو نے تاروں سے شب کی مانگ بھری
مجھ کو اک اشک صبح گاہی دے
تو نے بنجر زمیں کو پھول دیے
مجھ کو اک زخم دل کشا ہی دے
بستیوں کو دیے ہیں تو نے چراغ
دشت دل کو بھی کوئی راہی دے
عمر بھر کی نوا گری کا صلہ
اے خدا کوئی ہم نوا ہی دے
زرد رو ہیں ورق خیالوں کے
اے شب ہجر کچھ سیاہی دے
گر مجال سخن نہیں ناصرؔ
لب خاموش سے گواہی دے
غزل
جرم امید کی سزا ہی دے
ناصر کاظمی