جرأت اظہار کا عقدہ یہاں کیسے کھلے
مصلحت کا بیم دل میں ہے زباں کیسے کھلے
بے دلی سے ہے رگ و پے میں لہو ٹھہرا ہوا
آنکھ میں پوشیدہ زخموں کا نشاں کیسے کھلے
دام ساحل ہے سفینے کی اسیری کا سبب
سر پٹکتا ہوں کہ اب یہ بادباں کیسے کھلے
حرف مبہم کی طرح اوراق روز و شب میں ہوں
راز آخر دشمنوں کے درمیاں کیسے کھلے
ہر گھڑی دستک کوئی دیتا ہے اندر سے مجھے
سوچتا رہتا ہوں باب جسم و جاں کیسے کھلے
لفظ ہیں شاہد مری تحریر کے افسردہ لب
شعر میں پوشیدہ معنی کا جہاں کیسے کھلے

غزل
جرأت اظہار کا عقدہ یہاں کیسے کھلے
سلیم شاہد