جرأت عشق ہوس کار ہوئی جاتی ہے
بے پیے توبہ گنہ گار ہوئی جاتی ہے
دل ہے افسردہ تو بے رنگ ہے ہر رنگ بہار
بوئے گل بھی خلش خار ہوئی جاتی ہے
باوجودیکہ جنوں پر ہیں خرد کے پہرے
پھر بھی زنجیر کی جھنکار ہوئی جاتی ہے
ہر نفس موج فنا تیرے تھپیڑوں کے طفیل
کشتئ عمر رواں پار ہوئی جاتی ہے
جو نماز آج سر دار ادا کی میں نے
سجدۂ شکر کا معیار ہوئی جاتی ہے
جتنی آسانیاں ہوتی ہیں فراہم دن رات
زندگی اتنی ہی دشوار ہوئی جاتی ہے
جب سے دیکھا ہے کسی کے رخ روشن کو فگارؔ
آنکھ ہر جلوے سے بیزار ہوئی جاتی ہے
غزل
جرأت عشق ہوس کار ہوئی جاتی ہے
فگار اناوی