جرأت اے دل مے و مینا ہے وہ خود کام بھی ہے
بزم اغیار سے خالی بھی ہے اور شام بھی ہے
زلف کے نیچے خط سبز تو دیکھا ہی نہ تھا
اے لو ایک اور نیا دام تہ دام بھی ہے
چارہ گر جانے دے تکلیف مداوا ہے عبث
مرض عشق سے ہوتا کہیں آرام بھی ہے
ہو گیا آج شب ہجر میں یہ قول غلط
تھا جو مشہور کہ آغاز کو انجام بھی ہے
کام جاناں میرا لب یار کے بوسے سے سوا
خوگر چاشنی لذت دشنام بھی ہے
شیخ جی آپ ہی انصاف سے فرمائیں بھلا
اور عالم میں کوئی ایسا بھی بدنام بھی ہے
زلف و رخ دیر و حرم شام و سحر عیشؔ ان میں
ظلمت کفر بھی ہے جلوۂ اسلام بھی ہے
غزل
جرأت اے دل مے و مینا ہے وہ خود کام بھی ہے
عیش دہلوی