EN हिंदी
جنون شوق یقیں ضابطے سے آئی ہے | شیح شیری
junun shauq yaqin zabte se aai hai

غزل

جنون شوق یقیں ضابطے سے آئی ہے

جہانگیر نایاب

;

جنون شوق یقیں ضابطے سے آئی ہے
اڑان مجھ میں مرے حوصلے سے آئی ہے

مجھے بھی تو کبھی بین السطور میں رکھتا
پھر آج ایک صدا حاشیے سے آئی ہے

بھلانا جب کبھی چاہا ہے میں نے ماضی کو
نکل کے یاد تری حافظے سے آئی ہے

جسے خیال کا مرکز کبھی بنایا تھا
سنہری دھوپ اسی دائرے سے آئی ہے

یقین کر لو تو آئیں گے سب نظر اپنے
تمہارے دل میں کجی واہمے سے آئی ہے

کیا ہے میں نے خود اپنا محاسبہ اکثر
تمیز مجھ میں اسی تجربے سے آئی ہے

جو میں نے سوچ کا بدلا ہے زاویہ نایابؔ
ہر ایک چیز نظر قاعدے سے آئی ہے