جنوں سے گزرنے کو جی چاہتا ہے
ہنسی ضبط کرنے کو جی چاہتا ہے
جہاں عشق میں ڈوب کر رہ گئے ہیں
وہیں پھر ابھرنے کو جی چاہتا ہے
وہ ہم سے خفا ہیں ہم ان سے خفا ہیں
مگر بات کرنے کو جی چاہتا ہے
ہے مدت سے بے رنگ نقش محبت
کوئی رنگ بھرنے کو جی چاہتا ہے
بہ ایں خود سری وہ غرور محبت
انہیں سجدہ کرنے کو جی چاہتا ہے
قضا مژدۂ زندگی لے کے آئے
کچھ اس طرح مرنے کو جی چاہتا ہے
نظام دو عالم کی ہو خیر یارب
پھر اک آہ کرنے کو جی چاہتا ہے
گناہ مکرر شکیلؔ اللہ اللہ
بگڑ کر سنورنے کو جی چاہتا ہے
غزل
جنوں سے گزرنے کو جی چاہتا ہے
شکیل بدایونی