جنوں پے چھوڑ دی اب ساری زندگی میں نے
خرد کو آگ لگا دی ابھی ابھی میں نے
فقیر شہر کے شجرے کو دیکھنے کے بعد
امیر شہر کی دستار کھینچ لی میں نے
ہوائیں اتنی خنک تھیں کے خون جمنے لگا
تو تپتے سہرہ کی کچھ ریت اوڑھ لی میں نے
طلسم ٹوٹا پرندے سے شاہزادی بنی
جو سر میں کیل ٹھکی تھی نکال دی میں نے
گزارشوں کو نہ مانو مگر یہ یاد رکھو
کئی سنائے ہیں فرمان تغلقی میں نے
بنی گئی تھی جو خواہش کے تانے بانے سے
مزار دل سے وو چادر اتار دی میں نے
مرے چراغوں وصیت تو دیکھ لو میری
تمہارے حصے میں لکھ دی ہے روشنی میں نے
نوازؔ اس لیے رہتا ہے وو خفا مجھ سے
کے اس کی بات پے حامی نہیں بھری میں نے
غزل
جنوں پے چھوڑ دی اب ساری زندگی میں نے
نواز عصیمی