جنوں نے زہر کا پیالہ پیا آہستہ آہستہ
یہ شعلہ راکھ میں ڈھلنے لگا آہستہ آہستہ
بہت نازک ہیں احساسات ہم ارماں پرستوں کے
نہ ہم کو ٹھیس لگ جائے صبا آہستہ آہستہ
بجا ساز وفا لیکن ذرا دھیمے بجا مطرب
بپا ہے حشر سا دل میں صدا آہستہ آہستہ
خوشی کا ایک ایک لمحہ خراج زیست لے لے گا
یہ دل کے ٹوٹنے کا سلسلہ آہستہ آہستہ
یہ کیسا موڑ ہے بے حس زمانہ ساز یا قاتل
سلگتی ہے تمنا کی چتا آہستہ آہستہ
غزل
جنوں نے زہر کا پیالہ پیا آہستہ آہستہ
طلعت اشارت