جنوں میں ہم رہ خوف و خطر سے گزرے ہیں
جدھر سے کوئی نہ گزرے ادھر سے گزرے ہیں
صف صلیب جہاں انتظار کرتی تھی
مسیح وقت اسی رہ گزر سے گزرے ہیں
میں ڈوب ڈوب کے ابھرا ہوں ہر تلاطم سے
ہزار سیل رواں میرے سر سے گزرے ہیں
جو کل تھے بیٹھے ہوئے گیسوؤں کے سائے میں
وہ آج تپتی ہوئی رہ گزر سے گزرے ہیں
سکوت شام میں یادوں کے کارواں ماہرؔ
دل تباہ کے اجڑے نگر سے گزرے ہیں

غزل
جنوں میں ہم رہ خوف و خطر سے گزرے ہیں
اقبال ماہر