جنوں میں دھیان سے آخر پھسل گئی کوئی شے
نہ جانے کس کی دعا سے سنبھل گئی کوئی شے
ابھی ابھی مری آنکھوں میں کچھ دھواں سا اٹھا
ابھی ابھی مرے سینے میں جل گئی کوئی شے
بہت سنبھال کے رکھنے کی ہم نے کوشش کی
ہمارے ہاتھ سے پھر بھی نکل گئی کوئی شے
میں جب بھی دیکھتا ہوں زندگی کا پچھلا ورق
تو ایسا لگتا ہے دل میں کچل گئی کوئی شے
ہماری زندگی گرچہ تھی منتشر پہلے
جو وقت آیا تو سانچے میں ڈھل گئی کوئی شے
نہ کوئی ذوق تماشا نہ کوئی رنگ حیات
ضرورتوں کے بہانے بدل گئی کوئی شے
غزل
جنوں میں دھیان سے آخر پھسل گئی کوئی شے
مشتاق صدف