EN हिंदी
جنوں میں دیر سے خود کو پکارتا ہوں میں | شیح شیری
junun mein der se KHud ko pukarta hun main

غزل

جنوں میں دیر سے خود کو پکارتا ہوں میں

غنی اعجاز

;

جنوں میں دیر سے خود کو پکارتا ہوں میں
جو غم ہے دامن صحرا میں وہ صدا ہوں میں

بدل گیا ہے زمانہ بدل گیا ہوں میں
اب اپنی سمت بھی حیرت سے دیکھتا ہوں میں

حیات ایک سزا ہے بھگت رہا ہوں میں
در قبول سے لوٹی ہوئی دعا ہوں میں

جسے خود آپ ہی اپنے پہ پیار آ جائے
جفا کے دور میں وہ لغزش وفا ہوں میں

جمال یار کی رعنائیاں معاذ اللہ
نگاہ بن کے نظاروں میں کھو گیا ہوں میں

بس ایک جنبش لب تک وجود ہے جس کا
زبان شوق پہ وہ حرف مدعا ہوں میں

اگر ہے جرم محبت تو پھر تکلف کیا
مدار جرم ہوں تقصیر ہوں خطا ہوں میں

رفاقتوں کے یہ فانوس تا بہ کے اعجازؔ
ہوا کی زد پہ لرزتا ہوا دیا ہوں میں