جنوں کی رسم زمانے میں عام ہو نہ سکی
ہوس تھی چاہ وفا کی غلام ہو نہ سکی
لکھے تھے دار و رسن جس کسی کی قسمت میں
پھر اس کی زلف کے سائے میں شام ہو نہ سکی
مری اداسی کا باعث شب فراق نہیں
بسر یہ رات بصد اہتمام ہو نہ سکی
مری نگاہ اٹھی ہی رہی سوئے جاناں
تجلیوں میں گھری ہم کلام ہو نہ سکی
روا جہاں کو کہ مجنوں کو سنگسار کرے
قبائے زیست جنوں کی نیام ہو نہ سکی
خرد کی بات بھی سنتے کہاں ملی فرصت
جنوں کی بات لحد تک تمام ہو نہ سکی
غزل
جنوں کی رسم زمانے میں عام ہو نہ سکی
احمد شاہد خاں