جنوں کے باب میں یوں خود کو تمہارا کر کے
ہاتھ ملتا ہوں میں اپنا ہی خسارہ کر کے
اب مرے ذہن میں بس لذت دنیا ہے رواں
تھک چکا ہوں تری الفت پہ گزارہ کر کے
ہم ابھی صحبت دنیا میں ہیں مصروف مگر
کوئی شب تم کو بھی دیکھیں گے گوارہ کر کے
ہم سے خاموش طبیعت بھی ہیں دنیا میں کہ جو
اس کو ہی چاہتے ہیں اس سے کنارہ کر کے
دیر تک کوئی نہ تھا راہ بتانے والا
اور پھر لے گئی اک موج اشارہ کر کے
غزل
جنوں کے باب میں یوں خود کو تمہارا کر کے
راہل جھا