جنوں کا راز محبت کا بھید پا نہ سکی
ہمارا ساتھ یہ دنیا مگر نبھا نہ سکی
بکھر گیا ہوں فضاؤں میں بوئے گل کی طرح
مرے وجود میں وسعت مری سما نہ سکی
ہر اک قدم پہ صلیب آشنا ملے مجھ کو
یہ کائنات وفاؤں کا بار اٹھا نہ سکی
پٹک کے رہ گئی سر اپنا رہ گزاروں سے
مری صدا دل کہسار میں سما نہ سکی
کھلی ہوا کی فصیلوں میں زندگی ہے اسیر
فریب رنگ سے ماحول کو بسا نہ سکی
رضا طلوع سحر تک ہے زندگی شب کی
یہ بات اہل ستم کی سمجھ میں آ نہ سکی
غزل
جنوں کا راز محبت کا بھید پا نہ سکی
رضا ہمدانی