جنوں کا مرے امتحاں ہو رہا ہے
سکوں آج بار گراں ہو رہا ہے
چمکنے لگے میری نظروں میں ذرے
ستاروں کا چہرہ دھواں ہو رہا ہے
گناہوں سے بوجھل جبیں کی بدولت
ترا آستاں آستاں ہو رہا ہے
ادھر آسماں پر چمکتی ہے بجلی
مکمل ادھر آشیاں ہو رہا ہے
نہ گرداب و طوفاں نہ وعدے مخالف
مرا حوصلہ رائیگاں ہو رہا ہے
ترا درد اب میں سمجھنے لگا ہوں
مرا درد اب بے زباں ہو رہا ہے
یہ کیا کم ہے حیرتؔ میری کامیابی
کہ اب تک مرا امتحاں ہو رہا ہے
غزل
جنوں کا مرے امتحاں ہو رہا ہے
حیرت گونڈوی