جنوں گر بڑھ گیا رسوائیاں برباد کر دیں گی
نہ یوں پیچھے چلو پرچھائیاں برباد کر دیں گی
تمہیں ضد ہے اکیلے ہی چلو گے سوچ کر دیکھو
یہ کچھ آساں نہیں تنہائیاں برباد کر دیں گی
پرانے زخم ایسے کھول کر رکھنے سے کیا حاصل
یہ اپنے پر ستم آرائیاں برباد کر دیں گی
خوشی میں کیا ہے جو غم میں نہیں کیا بات کہہ ڈالی
تمہیں یے علم کی گہرائیاں برباد کر دیں گی
غزل سچی کہو اچھی کہو جو دل کو چھو جائے
تپشؔ یہ قافیہ پیمائیاں برباد کر دیں گی
غزل
جنوں گر بڑھ گیا رسوائیاں برباد کر دیں گی
مونی گوپال تپش