EN हिंदी
جنون عشق کی آمادگی نے کچھ نہ دیا | شیح شیری
junun-e-ishq ki aamadgi ne kuchh na diya

غزل

جنون عشق کی آمادگی نے کچھ نہ دیا

شائستہ سحر

;

جنون عشق کی آمادگی نے کچھ نہ دیا
یہاں بھی زیست کی افتادگی نے کچھ نہ دیا

لہو کی موج سے بام خیال روشن ہے
دمکتے چاند کی استادگی نے کچھ نہ دیا

یہ لب تمہارے نہیں کر سکے مسیحائی
انہیں بھی وقفۂ واماندگی نے کچھ نہ دیا

سمیٹ لائے تھے جتنے بھی خواب تھے لیکن
حضور دوست بھی دیوانگی نے کچھ نہ دیا

میں دیکھتی تھی ترے خال و خد کو حیرت سے
مگر یہ کیا کہ مری سادگی نے کچھ نہ دیا

تمہاری جیب بھی خالی تمہارے دل کی طرح
تمہیں بھی فرصت یک بارگی نے کچھ نہ دیا

دئیے کے نور میں کرتے رہے سفر سارے
وہ جن کو نسبت سیارگی نے کچھ نہ دیا

بھٹک رہے ہیں کسی اجنبی مسافت میں
مہہ‌ و نجوم کو آوارگی نے کچھ نہ دیا

وہ لوگ کون ہیں جن کو خدا نصیب ہوا
ہمیں تو دل تری نظارگی نے کچھ نہ دیا

یہ آنکھ آج بھی در پر لگی ہوئی ہے سحرؔ
تمام عمر کی بے چارگی نے کچھ نہ دیا