جنوں آور شب مہتاب تھی پی کی تمنا میں
کہ بہہ کر ریل میں اشکوں کے ہم تھے سیر دریا میں
ہماری خاک پر آہستہ ٹھوکر مار اے ظالم
مبادا شیشۂ دل ٹوٹ چبھ جاوے ترے پا میں
تمہارے آبلہ پاؤں کو جنگل یاد کرتا ہے
لہو ہر خار سے ٹپکے ہے اب لگ دست سودا میں
بکیفیت تھا از بس رات مذکور اس کی آنکھوں کا
بھری تھی بوئے نرگس یک قلم ہر جام صہبا میں
غبار آہ طوفاں سے چھپی ہے خاک میں بستی
یہ عزلتؔ شہر میں تھا جا رہا ناگاہ صحرا میں

غزل
جنوں آور شب مہتاب تھی پی کی تمنا میں
ولی عزلت