EN हिंदी
جدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے | شیح شیری
judai mujhko mare Dalti hai

غزل

جدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

مضطر خیرآبادی

;

جدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے
دہائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

تمہارے عشق میں دنیا ہے دشمن
خدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

حسینوں کی گلی ہے اور میں ہوں
گدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

تری جلاد آنکھوں کی ستم گر
صفائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

اسیری میں مزا تھا فصل گل کا
رہائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

خفا ہیں وہ دعاؤں کے اثر پر
رسائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

کیے دیتا ہے قاتل ذبح مضطرؔ
کلائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے