جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہو رقیب جدا
ہے اپنا اپنا مقدر جدا نصیب جدا
تری گلی سے نکلتے ہی اپنا دم نکلا
رہے ہے کیوں کہ گلستاں سے عندلیب جدا
دکھا دے جلوہ جو مسجد میں وہ بت کافر
تو چیخ اٹھے موذن جدا خطیب جدا
جدا نہ درد جدائی ہو گر مرے اعضا
حروف درد کی صورت ہوں اے طبیب جدا
ہے اور علم و ادب مکتب محبت میں
کہ ہے وہاں کا معلم جدا ادیب جدا
ہجوم اشک کے ہم راہ کیوں نہ ہو نالہ
کہ فوج سے نہیں ہوتا کبھی نقیب جدا
فراق خلد سے گندم ہے سینہ چاک اب تک
الٰہی ہو نہ وطن سے کوئی غریب جدا
کیا حبیب کو مجھ سے جدا فلک نے مگر
نہ کر سکا مرے دل سے غم حبیب جدا
کریں جدائی کا کس کس کی رنج ہم اے ذوقؔ
کہ ہونے والے ہیں ہم سب سے عن قریب جدا
غزل
جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہو رقیب جدا
شیخ ابراہیم ذوقؔ