EN हिंदी
جدا ہے درد کا مفہوم لفظ خواب کے ساتھ | شیح شیری
juda hai dard ka mafhum lafz-e-KHwab ke sath

غزل

جدا ہے درد کا مفہوم لفظ خواب کے ساتھ

میر نقی علی خاں ثاقب

;

جدا ہے درد کا مفہوم لفظ خواب کے ساتھ
شعور ذات نکھرتا ہے انقلاب کے ساتھ

نظر اٹھا کے تو دیکھو افق کے چہرے پر
مری غزل کا تقدس ہے آفتاب کے ساتھ

ازل سے دشت و بیاباں میں گھومتی ہے حیات
کبھی نقاب سے ہٹ کر کبھی نقاب کے ساتھ

شفق ہے یا تری آنکھوں کی موج بے خوابی
جو گھل رہی ہے ہر اک قطرۂ شراب کے ساتھ

گزار دی ہیں کئی انتظار کی شامیں
کچھ اضطراب کی خاطر کچھ اضطراب کے ساتھ

مرے وجود کی تنہائیوں کے زینے سے
اتر رہا ہے سنبھل کر کوئی حجاب کے ساتھ

روایتوں کے دواوین دیکھنے والو
نئے مزاج کا چہرہ پڑھو کتاب کے ساتھ