جوش پر اپنی مستیاں آئیں
یاد کس کی یہ شوخیاں آئیں
باتوں باتوں میں لے لیا دل کو
تمہیں کیوں کر یہ پھرتیاں آئیں
کہیں ان کو نہ یاد آیا ہوں
آج کیوں مجھ کو ہچکیاں آئیں
دونوں عالم ہوئے تہ و بالا
ان کو کیوں خوش خرامیاں آئیں
رک رہا دم جو آ کے آنکھوں میں
یاد کس بت کی انکھڑیاں آئیں
بال کھولے نہا رہے تھے وہ
کیا ہی گھر گھر کے بدلیاں آئیں
تم جو سوئے تو تلوے سہلانے
میری آنکھوں کی پتلیاں آئیں
پھر لگاتے ہو مہندی ہاتھوں میں
یاد پھر رنگ ریلیاں آئیں
جوش وحشت کے دن پھر آ پہنچے
مژدہ اے دل کہ بیڑیاں آئیں
پڑ گیا ہاتھ جب گریباں پر
ہاتھ دو چار دھجیاں آئیں
نخل امید بارور نہ ہوا
پھول آئے نہ پتیاں آئیں
میں نے فرقت میں آہیں کیں دو چار
لوگ سمجھے کہ آندھیاں آئیں
کل سے دل کو جو کل نہیں پڑتی
یاد کس کی کلائیاں آئیں
میں نے لکھے یہاں سے مطلب دل
واں سے لکھ لکھ کے گالیاں آئیں
رخ پہ بوسوں کے بن گئے ہیں نشاں
غازہ ملیے کہ جھائیاں آئیں
حسب وعدہ جو کل نہ آئے تم
دل میں لاکھوں برائیاں آئیں
آیا گلشن میں جب وہ سرو سہی
گرد پھرنے کو قمریاں آئیں
اپنے جینے سے ہو گئی نفرت
یاد کس کی رکھائیاں آئیں
جی نہ لگنا تھا حسرتوں کے بغیر
خوش ہوا دل سہیلیاں آئیں
دل تڑپنے لگا جو سینے میں
یاد کس بت کی شوخیاں آئیں
اشک حسرت نکل پڑے انجمؔ
اٹھو اٹھو کہ بوندیاں آئیں
غزل
جوش پر اپنی مستیاں آئیں
مرزا آسمان جاہ انجم