جوش پر آیا نہیں ہے رقص مستانہ ابھی
رہنے دو گردش میں تھوڑی دیر پیمانہ ابھی
جام خالی ہو کسی کا کوئی خم کے خم چڑھائے
یار سمجھے ہی نہیں آداب مے خانہ ابھی
اک ذرا پیر مغاں دے دے ہمیں بھی اختیار
لا کے جوبن پر دکھا سکتے ہیں مے خانہ ابھی
عشق کی فطرت نہ بدلی ہے نہ بدلے گی کبھی
شمع روشن کیجئے آتا ہے پروانہ ابھی
دے دیا دل ہم نے پورا ہو گیا یوں ایک باب
مان جائیں آپ تو پورا ہے افسانہ ابھی
سن رہے ہیں آ رہی ہے ہر طرف تازہ بہار
اپنا گھر کیوں لگ رہا ہے مجھ کو ویرانہ ابھی
اے فریدیؔ وہ ستاتے ہیں ستا لینے بھی دو
کمسنی ہے اور ہیں انداز طفلانہ ابھی

غزل
جوش پر آیا نہیں ہے رقص مستانہ ابھی
رئیس الدین فریدی