جوش گریہ یہ دم رخصت یار آئے نظر
ابر جوشاں کا بندھا جیسے کہ تار آئے نظر
رنگ گل زار جہاں گرچہ ہزار آئے نظر
چین پر دل کو کہاں تاکہ نہ یار آئے نظر
اپنا جب کوئے تصور میں گزار آئے نظر
جس طرف دیکھیں ادھر صورت یار آئے نظر
ہوں میں کس غیرت گل زار کا زخمی کہ مرے
ہر بن مو پہ گل زخم ہزار آئے نظر
بن پڑھے پھاڑ کے خط رکھ دے جو وہ روزن میں
جوں قلم سینہ مرا کیوں نہ فگار آئے نظر
ہم سخن جس سے نہ ہو سکیے پھر اس شوخ سے آہ!
اور کچھ بات کا کب دار و مدار آئے نظر
ہو جہاں جنبش لب کا بھی نہ یارا اے وائے
منہ کہاں یہ کہ جو واں بوس و کنار آئے نظر
ہم دل افروختہ واں جوں شرر سنگ ہیں آہ
نہ جہاں پیک صبا کا بھی گزار آئے نظر
سر بلندی جنہیں دے چرخ نہ دے چین انہیں
کہ بہ گردش مہ و خور لیل و نہار آئے نظر
جب کہ ہر روز کٹیں وعدے پہ گھڑیاں گنتے
کیوں نہ ہر دن ہمیں پھر روز شمار آئے نظر
اس کے محرم پہ بھبوکا سی جو دیکھوں چڑیا
کیوں نہ جوں طائر سیماب قرار آئے نظر
ہو بہ صد رنگ شگفتہ لب دریا پہ وہ باغ
ہر روش جس میں کہ بس لطف ہزار آئے نظر
چار سو نغمہ سرائی میں ہوں مرغان چمن
شاخ در شاخ عجائب گل و بار آئے نظر
موج دریا ادھر اٹکھیلی کی چالیں دکھلائے
اور ادھر رقص کناں باد بہار آئے نظر
ہووے اطراف سے گھنگھور گھٹا گھر آئی
کوند بجلی کی ہو اور پڑتی پھوار آئے نظر
اک طرف مور منڈیروں پہ کریں کیا کیا شور
اک طرف ابر میں بگلوں کی قطار آئے نظر
گردش جام ہو جوں گردش چشمان بتاں
ہاتھ میں مطرب سر خوش کے ستار آئے نظر
لب بہ لب سینہ بہ سینہ جسے چاہیں وہ ہو
گلشن زیست کی تب ہم کو بہار آئے نظر
عاشقانہ غزل اب پڑھ کوئی جرأتؔ تہہ دار
معنیٔ تازہ بھی تا یاروں کو یار آئے نظر
غزل
جوش گریہ یہ دم رخصت یار آئے نظر
جرأت قلندر بخش