جوبن ان کا اٹھان پر کچھ ہے
اب مزاج آسمان پر کچھ ہے
کیا ٹھکانا ہے بات کا ان کی
دل میں کچھ ہے زبان پر کچھ ہے
وعدہ ہے غیر سے یہ حیلہ ہے
کام مجھ کو مکان پر کچھ ہے
حور کا ذکر کیوں کیا دم مرگ
شبہ میرے بیان پر کچھ ہے
گمشدہ دل نہ ہو کہیں میرا
ان کی محرم کی پان پر کچھ ہے
ہو کے رسوا کسے کیا رسوا
ذکر سب کی زبان پر کچھ ہے
کیوں نہ ہو شوق جلوۂ لب بام
اب جوانی اٹھان پر کچھ ہے
کہو میہمان غم سے اب رخصت
قرض کیا میزبان پر کچھ ہے
بنگ ہی دے جو مے نہیں واعظ
تیری اونچی دکان پر کچھ ہے
میں نے گھورا تو ہمدموں سے کہا
دیکھو اس نوجوان پر کچھ ہے
رکھ دیا ہاتھ ان سے یہ کہہ کر
ٹھہرو اے جان ران پر کچھ ہے
کوئی چھپ کر گیا ہے غیر کے گھر
شک قدم کے نشان پر کچھ ہے
بالے پہنے الٹ کے کانوں میں
اور گھبرائے کان پر کچھ ہے
ہوں یہاں اس لیے دکن کو ریاضؔ
رشک ہندوستان پر کچھ ہے
غزل
جوبن ان کا اٹھان پر کچھ ہے
ریاضؔ خیرآبادی