جو زخموں سے اپنے بہلتے رہیں گے
وہی پھول ہیں شہد اگلتے رہیں گے
گھٹائیں اٹھیں سانپ ویرانیوں کے
انہی آستینوں میں پلتے رہیں گے
شریعت خس و خار ہی کی چلے گی
علم رنگ و بو کے نکلتے رہیں گے
نئی بستیاں روز بستی رہیں گی
جنہیں میرے صحرا نگلتے رہیں گے
مچلتے رہیں روشنی کے پتنگے
دیے میرے کاجل اگلتے رہیں گے
رواں ہر طرف ذوق پستی رہے گا
بلندی کے چشمے ابلتے رہیں گے
جسے سانس لینا ہو خود آڑ کر لے
یہ جھونکے ہوا کے تو چلتے رہیں گے
یہ پتے تو اب پھول کیا ہو سکیں گے
مگر عمر بھر ہاتھ ملتے رہیں گے
محبؔ راستی ہے عبارت کجی سے
مرے بل کہاں تک نکلتے رہیں گے

غزل
جو زخموں سے اپنے بہلتے رہیں گے
محب عارفی