جو یہاں حاضر ہے وہ مثل گماں موجود ہے
اور جو غائب ہے اس کی داستاں موجود ہے
اے غبار خواہش یک عمر اپنی راہ لے
اس گلی میں تجھ سے پہلے اک جہاں موجود ہے
اب کسی انبوہ گم گشتہ کی جانب ہو سفر
اور کوئی چپکے سے کہہ دے تو کہاں موجود ہے
شاید آ پہنچا ہے عہد انتظار گفتگو
چار جانب خلقت لب بستگاں موجود ہے
رات پھر آنکھوں سے بہہ نکلی تمنائے وصال
ایسا لگتا تھا کہ تو بھی درمیاں موجود ہے
پہلے تھی اک تشنگی محرومیوں سے ہم کنار
اب رگوں میں نشۂ عمر رواں موجود ہے
عزم خود کو کاروان نفع میں شامل نہ کر
تیرے شانوں پر ابھی بار زیاں موجود ہے
غزل
جو یہاں حاضر ہے وہ مثل گماں موجود ہے
عزم بہزاد