جو تو نہیں تو موسم ملال بھی نہ آئے گا
گئے دنوں کے بعد عہد حال بھی نہ آئے گا
مری سخن سرائیوں کا اعتبار تو نہیں
جو تو نہیں تو ہجر کا سوال بھی نہ آئے گا
اگر وہ آج رات حد التفات توڑ دے
کبھی پھر اس سے پیار کا خیال بھی نہ آئے گا
شب وصال ہے بساط ہجر ہی الٹ گئی
تو پھر کبھی خیال ماہ و سال بھی نہ آئے گا
ملے گا کیا طلسم ذات کا حصار توڑ کر
کہ اس کے بعد شہر بے مثال بھی نہ آئے گا

غزل
جو تو نہیں تو موسم ملال بھی نہ آئے گا
یعقوب یاور