جو ترے در پہ میری جاں آیا
مر گیا کہتا میں کہاں آیا
دیکھیں اب کس کا پردہ اٹھے گا
حرف شکوہ سر زباں آیا
مت اٹھا اس کو سو جہت سے ہائے
در پہ تیرے یہ ناتواں آیا
تیرے ہاتھوں سے بے قرارئ دل
جی ہمارا بھی اب بہ جاں آیا
تو تو اک ہی طرف سے یاں سے گیا
غم ہزاروں طرف سے یاں آیا
مر ہی جانا بھلا ہے میر رضاؔ
یار اب بہر امتحاں آیا
غزل
جو ترے در پہ میری جاں آیا
رضا عظیم آبادی