EN हिंदी
جو تھے ہاتھ مہندی لگانے کے قابل | شیح شیری
jo the hath mehndi lagane ke qabil

غزل

جو تھے ہاتھ مہندی لگانے کے قابل

ریاضؔ خیرآبادی

;

جو تھے ہاتھ مہندی لگانے کے قابل
ہوئے آج خنجر اٹھانے کے قابل

عنادل بھی کلیاں بھی گل بھی صبا بھی
یہ صحبت ہے ہنسنے ہنسانے کے قابل

حنا بن کے میں چوم لوں دست نازک
ترے ہاتھ ہیں رنگ لانے کے قابل

جوانی کا اب رنگ کچھ آ چلا ہے
وہ اب ہو چلے ہیں ستانے کے قابل

مجھے دیکھ کر دخت رز تن رہی ہے
یہ کھنچ کر ہوئی ہے اڑانے کے قابل

قیامت میں دیکھیں گے کیوں کر انہیں ہم
نہیں شرم سے آنکھ اٹھانے کے قابل

بنائیں نہ اب اس کو اب شمع محفل
جلا دل نہیں ہے جلانے کے قابل

چمن میں اڑا ان کو اے باد صرصر
مرے ٹوٹے پر ہیں اڑانے کے قابل

بنے شعلے بجلی کے قسمت سے میری
جو تنکے تھے کچھ آشیانے کے قابل

بڑھاپے میں ثابت ہوئے دزد مے ہم
نہ آنے کے قابل نہ جانے کے قابل

یہ کہتی ہے حضرت کی ریش حنائی
ریاضؔ اب بھی ہیں رنگ لانے کے قابل