EN हिंदी
جو تیری یادوں سے اس دل کا آفتاب ملے | شیح شیری
jo teri yaadon se is dil ka aaftab mile

غزل

جو تیری یادوں سے اس دل کا آفتاب ملے

شارب مورانوی

;

جو تیری یادوں سے اس دل کا آفتاب ملے
تو میری آنکھوں کو دریاؤں کا خطاب ملے

مرے مکان تمنا کی سیڑھیوں پہ کبھی
ترا شباب مجھے صورت گلاب ملے

کرن کی نوکیں چبھیں تن میں تب ہوا احساس
کہ خنجروں کی طرح مجھ سے آفتاب ملے

تمہاری آنکھوں کے ان نیم وا دریچوں میں
عذاب دید کی صورت شکستہ خواب ملے

گناہ ایک ہی دونوں کا ہے تو پھر یہ کیوں
اسے ثواب ملے اور مجھے عذاب ملے

مرا سلام غریب الوطن سے کہہ دینا
کبھی جو دشت میں نیزوں پہ آفتاب ملے