جو تیرے حسن میں نرمی بھی بانکپن بھی ہے
وہ کیف تازہ بھی ہے نشۂ کہن بھی ہے
مجھے تو چین سے رہنے دے اے دل وحشی
کہ دشت بھی ہے ترے سامنے چمن بھی ہے
کہاں کی منزل مقصود راستہ بھی نہیں
سفر میں ساتھ خدا بھی ہے اہرمن بھی ہے
وہ ایک لمحہ پراں وہ ایک ساعت دید
حنا بدست بھی ہے لالہ پیرہن بھی ہے
بچشم شبنم گریاں اگر کوئی دیکھے
ترا لباس ہی اے گل ترا کفن بھی ہے
وہ ایک گوشۂ جنت جسے دکن کہئے
نگار شاعر بدنام کا وطن بھی ہے
غزل
جو تیرے حسن میں نرمی بھی بانکپن بھی ہے
سلیمان اریب