جو تیرے دل میں سہو تری یاد سے ہوا
نام اس کا محو عالم ایجاد سے ہوا
برباد خاک دل ہے تو احسان حسن کیا
میں سر بلند عشق کی افتاد سے ہوا
ایسے بھی ہیں کہ ان کو رہائی کی فکر ہے
شرمندہ میں تو زحمت صیاد سے ہوا
ناقوس اور اذاں کی بنا عشق سے پڑی
فریاد کا چلن مری فریاد سے ہوا
عشق و ہوس نے مل کے بنائی ہے بزم حسن
یہ اتحاد مجمع اضداد سے ہوا
دنیاے بے ثبات کا قصہ تھا مختصر
طول اتنا میری قید کی میعاد سے ہوا
غزل
جو تیرے دل میں سہو تری یاد سے ہوا
ناطقؔ لکھنوی