جو شخص بھی ملا ہے وہ اک زندہ لاش ہے
انساں کی داستان بڑی دل خراش ہے
دامن دریدہ قلب و نظر زخم زخم ہیں
اب شہر آرزو میں یہی بود و باش ہے
بس اب تو رہ گئی ہے دکھاوے کی زندگی
سانسوں کے تار تار میں ایک ارتعاش ہے
مٹی نے پی لیا ہے حرارت بھرا لہو
جوش نمو ملا تو بدن قاش قاش ہے
کانٹوں نے بھی خزاں کی غلامی قبول کی
دیکھو تو آج چہرۂ گل پر خراش ہے
وہ دور اب کہاں کہ تمہاری ہو جستجو
اس دور میں تو ہم کو خود اپنی تلاش ہے
افضلؔ وہ بن سنور کے تو آ جائیں گے کبھی
آئینۂ حیات مگر پاش پاش ہے
غزل
جو شخص بھی ملا ہے وہ اک زندہ لاش ہے
افضل منہاس