جو شجر بے لباس رہتے ہیں
ان کے سائے اداس رہتے ہیں
چند لمحات کی خوشی کے لیے
لوگ برسوں اداس رہتے ہیں
اتفاقاً جو ہنس لیے تھے کبھی
انتقاماً اداس رہتے ہیں
میری پلکیں ہیں اور اشک ترے
پیڑ دریا کے پاس رہتے ہیں
ان کے بارے میں سوچئے طاہرؔ
جو مسلسل اداس رہتے ہیں
غزل
جو شجر بے لباس رہتے ہیں
طاہر فراز