EN हिंदी
جو سمجھاتے بھی آ کر واعظ برہم تو کیا کرتے | شیح شیری
jo samjhate bhi aa kar waiz-e-barham to kya karte

غزل

جو سمجھاتے بھی آ کر واعظ برہم تو کیا کرتے

مجروح سلطانپوری

;

جو سمجھاتے بھی آ کر واعظ برہم تو کیا کرتے
ہم اس دنیا کے آگے اس جہاں کا غم تو کیا کرتے

حرم سے مے کدے تک منزل یک عمر تھی ساقی
سہارا گر نہ دیتی لغزش پیہم تو کیا کرتے

جو مٹی کو مزاج گل عطا کر دیں وہ اے واعظ
زمیں سے دور فکر جنت آدم تو کیا کرتے

سوال ان کا جواب ان کا سکوت ان کا خطاب ان کا
ہم ان کی انجمن میں سر نہ کرتے خم تو کیا کرتے

جہاں مجروحؔ دل کے حوصلے ٹوٹیں نگاہوں سے
وہاں کرتے بھی مرگ شوق کا ماتم تو کیا کرتے