EN हिंदी
جو صلیب شب پہ گونجے وہ صدا کہئے مجھے | شیح شیری
jo salib-e-shab pe gunje wo sada kahiye mujhe

غزل

جو صلیب شب پہ گونجے وہ صدا کہئے مجھے

ناز قادری

;

جو صلیب شب پہ گونجے وہ صدا کہئے مجھے
یہ ستم کیسا کہ ساز بے نوا کہئے مجھے

بے کراں وسعت میں ہوں میں ٹوٹتے تاروں کی چیخ
ہاں کسی درماندہ رہرو کی دعا کہئے مجھے

میرا ہر شیرازہ برہم ہو گیا لمحوں کے ساتھ
منتشر اوراق کا اک سلسلہ کہئے مجھے

صبح سے اب تک رہا میں ساتھ اس کے لیکن اب
شام کے جنگل میں گم ہوتا ہوا کہئے مجھے

نازؔ میں بھی آتشیں جذبات رکھتا تھا کبھی
اب خنک راتوں کی برفیلی ہوا کہئے مجھے