جو صحیفوں میں لکھی ہے وہ قیامت ہو جائے
گر محبت دل انساں سے بھی رخصت ہو جائے
تو زمینوں پہ اتر کر جو گزارے اک دن
آسمانوں کے خدا تجھ کو بھی حیرت ہو جائے
کہیں ایسا نہ ہو کہ تنہا یوں ہی رہتے رہتے
رفتہ رفتہ مجھے تنہائی کی عادت ہو جائے
کچھ بشر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن سے مل کر
دیوتاؤں کی طرح ان سے عقیدت ہو جائے
بد دعا اس نے مجھے دی ہے کہ روحیؔ تجھ کو
اپنے جیسے کسی ظالم سے محبت ہو جائے
غزل
جو صحیفوں میں لکھی ہے وہ قیامت ہو جائے
ریحانہ روحی