جو سارے ہم سفر اک بار حرز جاں کر لیں
تو جس زمیں پہ قدم رکھیں آسماں کر لیں
اشارہ کرتی ہیں موجیں کہ آئے گا طوفاں
چلو ہم اپنے ارادوں کو بادباں کر لیں
پروں کو جوڑ کے اڑنے کا شوق ہے جن کو
انہیں بتاؤ کہ محفوظ آشیاں کر لیں
جو قتل تو نے کیا تھا بنا کے منصوبہ
ترے ستم کو بڑھائیں تو داستاں کر لیں
دہکتے شعلوں پہ چلنے کا شوق ہے جن کو
رتوں کی آگ میں وہ حوصلے جواں کر لیں
یہ ان سے کہہ دو اگر امتحان کی ضد ہے
سمندروں کی طرح دل کو بے کراں کر لیں
ہر ایک بوند کا لیں گے حساب ہم علویؔ
ہمارے خون سے دل کو وہ شادماں کر لیں
غزل
جو سارے ہم سفر اک بار حرز جاں کر لیں
عباس علوی