جو ساقیا تو نے پی کے ہم کو دیا ہے جام شراب آدھا
تو اپنے دانتوں سے کاٹ کر دے ہمارے منہ میں کباب آدھا
وہ پر گنہ ہوں کہ رہ گئے سب اسی میں دن کٹ گیا وہ سارا
ہنوز محشر کے محکمے میں ہوا تھا میرا حساب آدھا
کہاں گئی اب وہ لن ترانی نہ تاب جلوے کی لائے عاشق
ہنوز کھولا تھا بہر دیدار اس نے بند نقاب آدھا
جزائے کامل جو چاہتا ہے تو ذبح کر ڈال جلد قاتل
نہ چھوڑنا مجھ کو نیم بسمل کہ پائے گا تو ثواب آدھا
دماغ دیکھو مرے صنم کا گلا جو کرتا ہوں میں ستم کا
تو دیتے ہیں ساری بات کا وہ مجھے بہ دقت جواب آدھا
سفید و سرخ ہے ایسی رنگت کہ جب بنا ہوگا اس کا پتلا
ملایا ہووے گا اس میں صانع نے میدا آدھا شہاب آدھا
دوپٹہ آب رواں کا سر کا جو اس کی محرم سے سمجھے یہ ہم
کہ بحر حسن صنم کا ہم کو دیا دکھائی حباب آدھا
اشارہ ہے صاف اے قلقؔ یہ کہ آؤ صہبا کشی ہو باہم
جو اس نے بھیجی ہے اپنی جھوٹی شراب آدھی کباب آدھا
غزل
جو ساقیا تو نے پی کے ہم کو دیا ہے جام شراب آدھا
ارشد علی خان قلق