جو روایت کا منکر ہو آئے
نقش ہائے بزرگاں مٹائے
ان کے دل میں جگہ مل گئی ہے
میری قیمت زمانہ لگائے
میں سمندر پہ ہنستا رہوں گا
یا مری تشنگی یہ بجھائے
غم کی حرمت اسی میں چھپی ہے
ایک آنسو بھی گرنے نہ پائے
زندگی میرے قدموں تلے ہے
موت مجھ پہ اب آنسو بہائے
غزل
جو روایت کا منکر ہو آئے
ندیم صدیقی