EN हिंदी
جو رشتوں کی عجب سی ذمہ داری سر پہ رکھی ہے | شیح شیری
jo rishton ki ajab si zimmedari sar pe rakkhi hai

غزل

جو رشتوں کی عجب سی ذمہ داری سر پہ رکھی ہے

ضیا ضمیر

;

جو رشتوں کی عجب سی ذمہ داری سر پہ رکھی ہے
تو اب دستار جیسی چیز بھی ٹھوکر پہ رکھی ہے

تری یادوں کی پائل سی کھنکتی ہے مرے گھر میں
مرے کمرے کے اندر گونجتی ہے در پہ رکھی ہے

تمہارے جسم نے پہلو بہ پہلو جس کو لکھا تھا
وہ سلوٹ جیوں کی تیوں اب بھی مرے بستر پہ رکھی ہے

تمہارے لمس کی خوشبو ابھی تک ساتھ ہے میرے
مرے تکیے کے نیچے ہے مرے بستر پہ رکھی ہے

کہاں کی بے قراری بیکلی اور کیسی بے چینی
ہتھیلی آپ کی جب اس دل مضطر پہ رکھی ہے

اب اس آشفتگی میں کیا بتائیں سلسلہ اپنا
کبھی جو خاندانی تھی شرافت گھر پہ رکھی ہے

کبھی ہم اس کو دل کا بوجھ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے
جو گٹھری ذمہ داری کی ہمارے سر پہ رکھی ہے