EN हिंदी
جو رنج نوشتے میں ہے کیوں کر نہ ملے گا | شیح شیری
jo ranj nawishte mein hai kyunkar na milega

غزل

جو رنج نوشتے میں ہے کیوں کر نہ ملے گا

میر علی اوسط رشک

;

جو رنج نوشتے میں ہے کیوں کر نہ ملے گا
لکھوائیں گے نامہ تو کبوتر نہ ملے گا

جس رات نقاب اس مہ کامل نے الٹ دی
تاروں کو نشان‌ مہ انور نہ ملے گا

ابر شب فرقت ہے بندھے آنسوؤں کا تار
اس طرح کا وقت اے مژۂ تر نہ ملے گا

کاہیدگیٔ جسم اگر یوں ہی رہے گی
ہم کو بھی ہمارا تن لاغر نہ ملے گا

انصاف کو سمجھو خضر راہ ہدایت
اے رشکؔ اب ایسا کوئی رہبر نہ ملے گا