جو رنج نوشتے میں ہے کیوں کر نہ ملے گا
لکھوائیں گے نامہ تو کبوتر نہ ملے گا
جس رات نقاب اس مہ کامل نے الٹ دی
تاروں کو نشان مہ انور نہ ملے گا
ابر شب فرقت ہے بندھے آنسوؤں کا تار
اس طرح کا وقت اے مژۂ تر نہ ملے گا
کاہیدگیٔ جسم اگر یوں ہی رہے گی
ہم کو بھی ہمارا تن لاغر نہ ملے گا
انصاف کو سمجھو خضر راہ ہدایت
اے رشکؔ اب ایسا کوئی رہبر نہ ملے گا
غزل
جو رنج نوشتے میں ہے کیوں کر نہ ملے گا
میر علی اوسط رشک